اُس دن بلوگ کے انگریزی لفظ پر غور کیا تو سوچا کہ اردو میں کہیں تو بلَاگ ہی کہیں گے۔ پھر بلَاگ سے ذہن میں لفظ بے لَاگ آیا۔ بلَاگ ہو تو بے لاگ ہی ہو۔
وہ دن گئے کہ خلیل خان فاختہ اُڑایا کرتے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ جلیمے کی رات، دل دے ٹکڑے کی فاختہ کو لاہور کا کوئی باز جھپٹ نہیں گیا۔ کوئی سوچے نہ سوچے، مینارِ پاکستان ضرور سوچتا ہو گا کہ ہائے، کیسے کیسے جن دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
عوام کا موڈ بالکل یہ ہے کہ، پپو یار تنگ نہ کر۔ کہاں منہ اٹھا کر نکل آئے ہو؟ پھر دیر سے بھی آئے ہو؟ کچوری کھلاؤ گے یا صرف کڑھائی دکھا رہے ہو؟ وہ پچھلی بار کچوری کا اعلان ہو گیا تھا، پھر چکوری کے چکر میں، گُل کچوری؟ گھر کیا، سب جل گیا، اب کڑھائی اور چِمٹے سے ٹن ٹن ہمیں مامو بناؤ۔ تمہارا کام صرف مانجھنے کا ہے، تو یہ دائیں بائیں پُھرتی کیسی؟ ابھی موڈ نہیں ہے کل آنا۔
ملک بھی میرا ہے، فوج بھی میری ہے۔ اس کا سستا ترجمہ یہ ہے کہ، یہ تو بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے، اِسے روکیں۔ روکتے روکتے، بادشاہت تو وَڑ گیا۔
بدعنوانی کے موضوع پر، ایک کزن جو کوئی تیس سال پہلے تین سال مدینہ شریف رہ کر آئے تھے، یہ بات ساتھ لائے، کہ شروع میں دو جُڑواں بھائی تھے، اُن میں سے ایک مصر چلا گیا، اور دوسرا پنجاب۔ کوئی شک؟
کسی نے کہا کہ نجومیوں کے مطابق فروری ١١ انتخابات کا دن ٹھیک نہیں۔ ایک بار ہمارے دادا مرحوم حاجی عبدالوہاب کے ہاں کوئی کسی نجومی کو لے آیا اور کہا کہ، میاں صاحب یہ کیا ہی خوب حال کہتے ہیں۔ دادا نے اِسے قریب بُلایا اور کَس کے ایک جھانپڑ رسیدہ۔ پھر پوچھا کہ، یہ آتے دیکھ لیا تھا؟
فروری ٨، ٢٠٢٤ کو انتخابات ہوں گے۔ اِس جملے پر ہنسی سپریم کورٹ تک ایسی پہنچی کہ انہوں نے بھی غصے میں کہا کہ، ڈیلناز نے کہا انتخابات فروری ۸ کو ہوں گے، تو انتخابات فروری 8 کو ہی ہوں گے۔ اِس کی نیت پر شک نہ کریں۔ نیت تو خراب کسی اور کی ہو رہی ہے۔ ڈیلناز کی اب کون سنتا ہے۔
مُنڈا جوان، بدن پہلوان، بال اور لشکارے ٹائٹ، دل پہاڑ سا، لیکن پاؤں میں خواتین والی لال اونچی سینڈل۔ کتنی دور ایسے چلے گا مُنڈا؟ اب تو جلیبی کی سی چال بھی سب کو نظر آ رہی ہے۔ روز موچ آتی ہے، روز ہیل ٹوٹتی ہے۔ روز کوئی نیا بھرم دیتا ہے۔
روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ سب نے بنایا، ہم نے نہیں۔ اِس ملک میں کوئی چیز خیر سے چلی ہے جو یہ سب چلتا؟ سچ پوچھیے جب دنیا چھوڑ کر لوگ بھاگے پاکستان چلے آ رہے تھے تو ہم ایک تو بُری طرح ہنستے، اور دوسرا کلیجہ منہ کو آتا کہ، گدھے پاگل۔
گیٹڈ کمیونٹی کی بات آئی، تو دلی نفرت ہوئی۔ ایک جگری کزن کو لکھ دیا کہ، یہاں امارات پوری ہی گیٹڈ کمیونٹی ہے۔ سب برابر اور سب کی سکیورٹی برابر۔ ذرا کوئی پرندہ پر تو مار کے دیکھے۔ کمیونٹی ہو تو ایسی، ورنہ کمیونٹی کیسی؟
پچھلے کچھ ہفتوں میں اگر قوم کو دلی سُکون ملا تو وہ علیمہ خان صاحبہ کو سُن کر۔ جب آپ کے بڑے آپ کو ایسا حوصلہ دیں، تو پھر کیا فرق پڑتا ہے، بازی تو آپ مار ہی گئے۔
ہماری چھوٹی بیٹی سے اُس دن تو ڈانٹ ہی کھائی۔ وہ بولیں ”عمران خان زندہ باد“۔ ہم نے کہا، پہلے ”پاکستان زندہ باد“، پھر ”عمران خان زندہ باد“۔ اِس پر ایسے زور سے کہا کہ ”نو، عمران خان زندہ باد“۔ ہم نے کچھ اور کوشش کی، پھر ہار مان لی۔ اب کوئی کرے تو کیا کرے، لیکن مزا تو آیا!
غزہ پر آپ جناب میں جو مصروف ہیں، اِن کی فوجیں کسی کام کی نہیں۔ غزہ کی ائیرسپیس میں آ کر ہی نہ وہ بم گرا رہے ہیں؟ تو آپ اپنے کوئی بارہ تیرہ طیارے پہلے ہی دن اِس کی ائیرسپیس میں پہنچا دیتے، کہ شہریوں کی حفاظت کے لئے ہیں۔ پھر وہ آپ کا اگر ایک جہاز بھی گرا دیتے تو آپ روتے، چیختے، چلاتے اور واوَیلا مچا دیتے۔ کم از کم، کچھ کیا تو ہوتا۔
محمد حجاب نے جو ایسی کی تیسی پیرس مورگن کی فلسطین کے معاملے پر کی، کیا ہی کہنے۔ گورا خوب لال پیلا ہوا۔ حجاب نے صحیح موقع پر بات صاف کہ دی کہ ہم ہر معصوم جان کے جانے کی مذمت کرتے ہیں، اسلامی تعلیمات کے باوجود نہیں، بلکہ اس لئے کہ یہ عین اسلامی تعلیم ہے۔ کچھ خواتین حجاب حجاب کا لفظ سن کر گھبرا تو نہیں رہیں؟
آخر میں، اُحد کی جنگ کے بعد، رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ابن خطاب کو حکم دیا کہ جاؤ اور یہ جواب دو، ”اللہ سب سے اعظم و جلیل ہے۔ ہم برابر نہیں: ہمارے شہید جنت میں ہیں، تمہارے شہید دوزخ میں۔“
تو کر لو جو بَن پڑے۔ جیت تو ہم گئے۔