جون بیس 1987، ایک 1983 کے ماڈل کی ٹویوٹا کرولا کوئی صبح دس بجے، ہمارے والد صاحب، والدہ صاحبہ، ہم اور ہماری تین بہنوں کے ساتھ، کوئی ڈھائی ہزار کلومیٹر کے مبارک سفر پر نکلتی ہے، کہ ایسی گرمی ہے، کہ کیا کہیں۔ البتہ، کچھ مہینوں سے، یا اِس سے پہلے سال میں، ہمارے والد صاحب ہم سب کو کبھی مسقط سے نِزوا، کبھی اِبرا، کبھی اِبری کے چھوٹے شہروں لئے جاتے ہیں، کہ یہ بھانپیں کہ اِن چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ کیا ہم حج پر بذریعہ گاڑی جا سکتے ہیں۔
اُن دِنوں لوگ آیا جایا کرتے، اکثر دبئی ہو آتے تو اُس سستے ٹی وی کی داستان ضرور سناتے جو وہ جمبو الیکٹرانکس سے کتنا سستا لے آئے تھے، یا کہ کوئی اور اَلا بَلا۔ ہمارے والد صاحب، یعنی پاپا کو کیوں یہ خیال آیا کہ سڑک سے جایا جائے، یہ ہمیں معلوم نہیں، کیونکہ جہاز سے بھی جایا جا سکتا تھا، تو یہ اب اللہ ہی جانے، شائد ٹکٹوں کے دام زیادہ ہوں گے، یا کہ یہ، کہ گاڑی ہونے سے کافی آسانی ہو جائے گی۔ اُس جون بیس کو ہم سب تیار تھے۔ ہم دس سال کے، ہماری جِگری ہمشیرہ اور سیکنڈ اِن کمانڈ آٹھ سال کی، دو ننھی مُنی جُڑواں بہنیں، کوئی موتیوں کے مانند، تین سال کی۔ نہ کوئی موبائل فون، نہ کوئی گوگل میپس، نہ کوئی اے ٹی ایم مشینیں۔ بس ہم اور ہمارا یہ کُنبہ۔
چلنے سے پہلے اپنی صرف تین سال پُرانی گاڑی میں، ہمیں ساتھ ملا کر پردے لگائے، کہ ہماری والدہ کو کہا تھا کہ انہیں کسی قسم کے باریک تولیوں سے بنا لیں۔ پھر پانی کے کچھ اسپرے کی بوتلیں لیں کہ اُن میں پانی بھر کر جب شدید گرمی ہو گی تو اسپرے کریں گے کہ نمی سے کچھ ٹھنڈک ہو۔ پردوں کو لگایا یوں، کہ ہارڈویئر شاپ سے جو اسکرو والے ہُک آتے ہیں، انہیں ہر کھڑکی کے اوپر اسکرو کر دیا اور ایک ڈوری نُما پلاسٹک کے تار سے لگا دیا۔ اِن کے بیچ پردہ گیا اور اِس طرح غالباً چاروں کھڑکیوں پہ آپ کو اِسمارٹ سَن شیڈز مل گئے۔ آج آپ گاڑی میں کیا لگائیے گا، یہ آپ سوچیے، یہ پاپا تھے، اُن کے کام، اور سوچ، کچھ مختلف۔
سفر لمبا تھا، لیکن اللہ نے مدد کی۔ ہم کہتے رہے ریاض سے گزرتے ہوئے کہ ریاض چلو، کچھ دل وہاں تھا، پھر شادی وہیں سے ہوئی، تو آج مسکراتے ہیں کہ سُسرال وہاں تھا۔ ریاض ہم نے کوئی دوپہر کے وقت پار کیا ہو گا، وہ چھوٹا سا ٹمپریچر اور کمپاس والا آلہ جو گاڑی کے ڈیش بورڈ پر پاپا نے لگایا تھا، پچاس ڈگری دکھا رہا تھا۔ پردوں پر ہم پانی چھڑکتے اور سوچتے کہ ہم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ برف کی طرح ٹھنڈا کرے گا، لیکن یہ ہے اور ہم ہیں، دونوں ہی اِس گرمی میں پگھلے جاتے ہیں۔ یہ سوچ کر ہم ایک دوسرے پہ پانی کے اسپرے کا فائر کر دیتے اور یہ بہتر محسوس ہوتا۔ 120 کی تیزی پہ چڑھتی گاڑی ایک ایسے قد آور پہاڑ کے سامنے آئی کہ کرتے کرتے، اِس پر چڑھتے چڑھتے بس کوئی 20 کی روانی پر ہو گی اور یہ پہاڑ اور اِس کی سڑک ایک سیدھ میں ایسا کہ جاپان کا ماؤنٹ فوجی معلوم ہو۔ ارے بھائی، وہ ایئر کنڈیشنر کہاں ہے جو گاڑی میں تھا؟ کیا معلوم، یہ وہ دن تھے جب ٹویوٹا کا ایئر کنڈیشنر ہوا پھینکتا تھا، برفیلی نہیں۔ گاڑی 1.3 سی سی کے انجن والی، سفید، ٹویوٹا کرولا ڈی ایکس ماڈل، اور مضبوط۔
مسقط سے مکہ تک کے اِس سفر میں، انکل عثمان مرحوم کا وہ خط ہمارے لئے کچھ گوگل میپس سے کم نہ تھا، جو انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔ اِس میں مسقط سے لے کر جدہ تک کے سارے سفر کے موڑ اور کہاں سے جانا ہے، کہاں تک، انہوں نے خود قلم بند کر کے پاپا کو بھیجا تھا۔ جو ہمیں یاد ہے، خوبصورت رنگین مارکرز بھی استعمال کئے تھے۔ اِس خط میں ڈائیگرام بھی تھے، تو ہم بھی اِسے پڑھتے۔ سعودی عرب کے کئی انٹرچینجوں میں سے ایک پر ہم نے پاپا سے کہا کہ ذرا رُکئے، اور ہم گاڑی سے اُتر کر سڑک کو دیکھنے لگے کہ اِس نقشے کے مطابق، ہم غلط موڑ لے چکے ہیں۔ ہماری والدہ نے بھی تصدیق کی ہو گی، کیونکہ اُن کو راستوں پر، اور راستے نکالنے پر کچھ زیادہ ہی مہارت حاصل ہے۔ تو پاپا نے دوسرا موڑ لیا اور کچھ دیر بعد ہم اور یہ نقشہ ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ ہاں، گُم ضرور ہوئے، عمرہ کرنے کے بعد جب انکل عثمان اور آنٹی کے ہاں رات کو جدہ پہنچے تو قریب کے کسی فون بوتھ سے امی نے فون کیا کہ کچھ گُم سے گئے ہیں۔ اِس پر انکل عثمان نے کہلوایا کہ اُن سے کہیں کہ رُکیں اور مسکراتے چلے آئے کہ ہم اُن کے گھر کی گلی کے موڑ پر ہی کھڑے تھے۔ نقشہ ہو تو ایسا، دل ہوں تو ایسے، سفر ہو تو ایسا۔ انکل عثمان، ہماری والدہ کی چھوٹی خالہ کے ہم سفر تھے۔ اِس سال اُن کے گزرنے کی خبر آئی تو دلی افسوس ہوا۔ لیکن یہ وقت ہے، بے رحمی سے گزر جاتا ہے۔ انکل عثمان کے ساتھ جب ہم رہے تو اُن کے ہاں کی کئی باتیں ہمیں یاد ہیں۔ کِسی دن ضرور لکھیں گے۔
1992 کی خطرناک فلم ٹرمینیٹر 2 دیکھ کر ہم یہ تو سیکھ گئے تھے کہ اگر ٹیپو سلطان نے گولیاں کھائی ہوں گی اپنے سینے پے تو آرنلڈ کی طرح، کہ بس فرق یہ تھا کہ ٹیپو سلطان انسان تھے اور آرنلڈ کا ٹرمینیٹر ایک مشین۔ ہم نے پاپا کے تدفین کے دن، قبرستان میں کسی کو یہی کہا، کہ کوئی ایسی گولی نہیں ہے جو ہم اپنے سینے پر نہ لیں، البتہ انگریزی میں کہا۔ جون بیس 2025، کوئی اڑتیس سال گُزرے اور عید کے کچھ دنوں بعد، ہمارے پاپا نے، ایک ایسی ہی گولی اپنے سینے پر لی۔ اِسے ڈاکٹر لوگ پلمنری ایمبولزم کہتے ہیں۔ پلمنری ایمبولزم اُس وقت ہوتا ہے جب پھیپھڑوں کی شریانوں میں خون کا کوئی لوتھڑا پھنس جائے اور پھیپھڑوں کے کسی حصے میں خون کا بہاؤ روک دے۔ اُس لمحے، پاپا کے لئے امی اُن کی صبح کی دوسری چائے بنا رہی تھیں۔ سیف پاپا کو کچھ ایکسرسائز کرانے جا رہا تھا، اور بس، اللہ کے حکم سے، اُن کے پاؤں سے یہ خونی مادہ، اُن کے پھیپھڑوں میں جا لگا، کئی چھوٹے چھوٹے ذروں میں ٹوٹ کر دل تک پہنچا، اور پھر اِس نے وہ کیا جو اِس کے رب نے اِسے حکم دیا تھا۔
پاپا نے اپنے سینہ پر ہاتھ رکھا اور سیف نے بتایا کہ انہوں نے کہا، آج میں مر جائے گا۔ سیف بنگلہ دیش سے ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاپا نے کہا، آج میں مر جاؤں گا۔ جون بیس 2024 سے اگست 2025 کا یہ سفر کوئی 432 دنوں پر مشتمل ہے۔ اِن دنوں کیا ہوا، کِسے ہماری یاد آئی، کس کو ہم نے یاد کیا، کون کیا کہتا رہا، کون کیا کرتا رہا، یہ سب فضول بکواس ہے، شیطانی فتنہ۔ اِن 432 دنوں میں ہم نے کیا کیا، بس، اپنے اللہ کو بہت خوب یاد کیا۔ پاپا ایک انگریز دان، انگلیش ڈراما پڑھے اور پڑھائے ہوئے، کچہ ہمیں بھی سکھائے ہوئے، آپ کی زندگی اور اِس کا اختتام ڈرامیٹک ہی ہونا تھا۔ کوئی اِسے المیاتی کہے گا، کوئی الم مضحکہ، کوئی دردناک، کوئی تاریخی، نفسیاتی، رومانوی، کوئی فلسفیانہ۔ ہمارے لئے تو یہ صرف پاپا تھے۔
اللہ سُبحانہ و تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمیں اُن سے سیکھنے، اُن کے ساتھ کھڑے رہنے اور اُن کے آخری وقت میں اُن کے قریب ہونے کی توفیق فرمائی۔ یہ ملاقات جلد پھر ہو گی، ویسے، ہم سب کو تیار کرنے اور کچھ تیاریاں کرنے، پاپا ہی کو تو پہلے جانا تھا۔
ہم ابھی تک نہیں روئے۔ وہ جو کُھل کر کوئی رو دیتا ہے، یا کہ شِدتِ غم کی حالت میں۔ کل نماز پڑھتے ایک عجیب خیال دل میں آیا اور ہم سجدے میں سوچ پڑے کہ یا اللہ، آپ کو پتہ ہے نا کہ پاپا چلے گئے۔ اِس پر کچھ آنکھیں نم ہوئیں، اور یہ لکھتے، اُس لمھے سے کچھ زیادہ۔ اِن 432 دنوں میں ہم نے کچھ آنسو پاپا کے گالوں سے گرتے دیکھے۔ ایک ایسا آنسو انہوں نے باباجی کے گال سے گرتا دیکھا تھا۔ یہ آنسو مسٹر ببّل ہمارے گال سے گرتے دیکھیں گے یا نہیں، اِسے وہ لکھیں گے۔ لیکن پتھر بھی کبھی رویا ہے کیا؟ ٹوٹ کر بکھر گیا ہے۔
اِس دن کے لئے ہم کچھ چار دہائیوں سے تیار تھے۔ اللہ نے ہمیں اُس وقت پاپا کے کمرے میں لا کھڑا کیا، جب وہ کچھ دیر ہوئے اللہ کو پیارے ہوئے تھے۔ اِن 432 دنوں کی کئی کہانیوں میں سے کچھ ہم آپ کو سنائیں گے۔ تب تک کے لئے، پاپا کے کِنگزی کو اجازت دیجئے۔ آپ ہمیشہ ہماری دُعاوں میں رہیں گے۔ آمین۔