جنوری میں نومبر کے کچھ لمحے ایسے محسوس ہوتے ہیں جیسے کئی برس پُرانی بات ہو۔ ابھی تو صرف کوئی ایک آدھ مہینہ ہی گزرا ہے۔
نومبر کے آخری کچھ دنوں میں امی نے بتایا کہ ہماری پہلی نانی، یا کہیے اصل نانی، اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو گئیں۔ کوئی بیس اکیس دن ہسپتال میں رہیں، جس دوران اُن کے دل پر اثر آیا۔ اُن کی عمر کوئی نوے سال سے زیادہ، اور اِن سالوں میں سے ہمارے لئے ایک لمحہ بھی نہیں۔ سوچتے ہیں اِس خبر پر دوسری نانی کے کیا تاثرات ہوں گے، لیکن آپ کیا ہمارے پَر ہی جلوائیے گا؟ شرارت کی بات ہے!
ہوا یہ تھا کہ نانی کو دل کا دورہ پڑا، جس کے بعد دل کمزور ہو گیا۔ اِس عمر میں ڈاکٹروں نے کہا کہ ڈائیلاسِس نہیں ہو سکتا، تو یہ احساس تو سب کو ہو گیا تھا کہ اُن کا وقت قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری نانی کو جنت نصیب فرمائے۔ آمین۔
اُن دِنوں جب زندگی ایک کروٹ کے بعد دوسری کروٹ لے رہی تھی، ہم نے شاید ملک کے حالات کا سرسری ہی مطالعہ کیا ہو گا۔ اچھی خبر تو آتی نہیں اور بُری خبر رکتی نہیں، کوئی نہ کوئی سُنا دیتا ہے۔ نومبر اور دسمبر میں غالبً صرف دینگا مشتی ہی ہوئی۔ اگر کچھ اچھا ہوا تو وہ یہ کہ انصاف کے ایوانوں کی منافقت سامنے آ گئی۔
زندگی کیا ہے؟ کسی پر بَم اور کسی پر دَھن برساتی ہے۔ اللہ کا ساتھ نہ ہو تو انسان ایسے میں درندہ ہے، جس کے نزدیک اُس کا نفس سب کچھ، اور اُس کی روح ایک کونے میں بند۔
آب و ہوا سے لے کر اخلاق اور تہذیب، سب کا کچالو بن چکا ہے۔ ایسے تو دو دن ہوٹل نہیں چل سکتا، ملک ہی کیا چلے۔ بچے تھے تو اِس کے ایسے چلنے کو معجزہ سمجھ کر، ہر وہ انسان جو ملک سے محبت رکھتا تھا، یہ سوچتا تھا کہ یہ آسمانی فیصلہ ہے کہ ملک آگے چل کر دنیا میں کوئی بڑا کردار ادا کرے گا۔ وقت نے دکھایا کہ صرف اداکار اور بد کردار ہی پیدا ہوئے۔
رسول اللہ ﷺ کی چند احادیث کو جمع کر کے اگر یہ نقش کھینچا جائے کہ یہ پیشن گوئی ہماری طرف اشارہ کرتی ہے تو اس میں کچھ سچ ضرور ہو سکتا ہے، لیکن غیب کا علم کسی کو نہیں۔ آپ کو یا کسی بھلے انسان کو اللہ کی طرف سے، فرشتوں کے ذریعے الہام ضرور ہو سکتا ہے، لیکن بس۔ کوئی چیز کیسے ہو گی، کب ہو گی، اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ جو پیشن گوئیاں کرتے ہیں، اُن کے گال سے پوچھیے، کبھی کسی مومن سے ملاقات ہوئی ہے؟
نومبر کے مہینے میں کوئی تیس سال پہلے ہمارے پھوپھا خالق اللہ کو پیارے ہوئے تھے۔ ہماری زندگی میں شاید یہ پہلی بار تھا کہ کسی کے گزر جانے کا صدمہ ہمیں ہوا تھا۔ ایک اس لئے کہ وہ ہمیں بہت پیارے تھے اور ہمارے والد صاحب سے بھی کافی محبت رکھتے تھے۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے ہمیں کہا تھا کہ وہ پھوپھی اور ہمارے کزنز کو لے کر مسقط آئیں گے اور وہاں سے بس خرید کر سب کو حج پر لے جائیں گے۔ تیسرا یہ کہ، اُن کا صوفہ، جو لال رنگ کا تھا ہمیں بہت ہی پسند تھا۔ ایک دن جب ہم اُس پر بیٹھ کر جلدی سے پھوپھا کو آتے دیکھ کر اُٹھنے لگے تو انہوں نے کہا کہ بیٹھے رہو اور ہمارے قریب آ کر بیٹھ گئے۔ اُس وقت ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ ہم کوئی بادشاہ ہیں۔ کیا ہی صوفہ تھا! سبحان اللہ۔
نومبر میں کچھ خوشی کی باتیں بھی ہوتی ہیں، آپ کہیں اِس مہینے سے ڈر ہی نہ جائیں! نومبر ۱۸ کو ہر سال عمان کا قومی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہم نے بچپن میں خوب منایا ہے۔ ۱۹ کو ہمارے والد صاحب کی پیدائش کا دن ہے، تو ہر سال اُن کو کیا تحفہ دیں کی کشمکش میں گزرتی ہے، کیونکہ انہوں نے منع کیا ہوا ہے کہ تحفہ نہ دیں۔ البتہ ہمارے ہاں سے اُن کی کچھ پسندیدہ چیزیں ہم ضرور دیتے آئے ہیں۔ چلیے، ۲۸ نومبر کو ۲۰۰۳ میں ہمارا نکاح ہوا تھا، اور ہاں، نومبر ۲ کو ایک قریبی دوست کی سالگرہ ہوتی ہے۔ یہ دوست شاہ رخ خان نہیں، اُن کے ایک بڑے فین ہیں، جو شاہ رخ کی طرح ۲ نومبر کو ہی پیدا ہوئے تھے۔ سر نہ پکڑ لیں ہم تو کیا کریں؟
دِنوں میں کیا رکھا ہے۔ یہ تو ایک فرنگی سالانہ تاریخوں کا نقشہ ہے اور کیا۔ اِس سے یادیں کیا وابستہ کرنا؟ یادیں تو دِلوں میں ہوتی ہیں، اور اعمال ناموں میں۔ ایک دن اپنی والدہ کو کہا کہ اگر لوگوں کا حساب صرف اُن کی یوٹیوب ہسٹری پر ہی ہو گیا، تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ آگے سے ڈانٹ پڑی، اور ہم خوب خوش ہوئے کہ کریز سے نکل کر شاٹ کھیلا۔
پھوپھا خالق مرحوم ۲۸ نومبر کو گزرے تھے، ہمارا نکاح کئی سالوں بعد ۲۸ کو ہی پڑا۔ اُن دِنوں ہم ہچکچاتے تھے کہ پھوپھی کے سامنے یہ تاریخ نہ بتا دیں، کہ اُن کو دکھ ہو گا، لیکن انہوں نے خود ہی کہہ دیا تھا، ‘کہ ۲۸ اللہ بخشے تمہارے پھوپھا کے انتقال کا دن ہے۔’ اس پر ہمیں کچھ سانس آئی، کہ ہم نے کوئی گڑبڑ نہیں کی۔
شاید ہر طوفان اِس لئے پلٹ جاتا یا پست پڑ جاتا ہے کہ انسان کی ہمت اُسے اِس قرۃ الارض پر جیتا رہنے کے لئے سامنے دکھیل دیتی ہے، کہ جاؤ اور لڑو۔ لیکن بقول رسول اللہ ﷺ، ہم موت کے ڈر اور اِس دنیا کی محبت میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔ اوپر سے ہندوستانی اپنے جذبات کو ہی خدا سمجھتے ہیں، اِس کے جال سے نہیں نکل سکتے۔ جذبات جانماز تک محدود رکھیے، اور زندگی کو فُل ٹاس بنا کر کھیلیے۔ مزہ آئے گا۔
اُن دِنوں کیا ہی خوشیاں تھیں، جب وہ جو اب ہم میں نہیں، پیدا ہوئے تھے؟ آج بھی کئی ایسی ہی خوشیاں ہیں۔ وقت دائیں سے گزر کر بائیں کی طرف جا رہا ہے، ہم صرف کھڑے اسے دیکھ رہے ہیں۔ کل ہم میں سے کوئی اور اسے دیکھے گا، دائیں سے بائیں جاتے ہوئے۔ آپ اور ہم نہیں۔
پچھلے ہفتے ایسا شاندار خواب آیا کہ دل سے موت کا ڈر ہی نکل گیا۔ کالے اندھیرے میں ہمیں آسمان کی طرف برق کی رفتار پر دنیا کا حال گزرتا محسوس ہوا،جیسے کہ تیز کوئی تارے آپ کے دائیں بائیں سے گزریں۔ پھر احساس ہوا کہ شاید ہم اپنی قبر میں ہیں، اور یہ وقت ہے جو تمام ہو رہا ہے۔ پھر آنکھ کھل جاتی ہے۔
اگر سوچیں تو، قبر سے اُٹھنے والے یہ بحث کریں گے کہ کتنے دن گزرے۔ قبر کے حساب کے بعد، جنت کی کھڑکی کھلنے کے بعد، اگر وقت کا احساس ہی نہیں تو کیا فکر؟ یوں اُٹھے اور یومِ محشر۔ ایک زندگی ختم اور دوسری شروع۔
آپ کچھ نہیں کر سکتے تو اپنے پے رحم تو کر سکتے ہیں؟ جس حقیقت کو اللہ نے بیان کر دیا ہے، اُس سے کیا ڈرنا۔ مزہ تو اِس میں ہے کہ ڈر پر قابو پا کر وہ کر دکھائیں جو اللہ آپ سے کروانا چاہتا ہے۔ کسی نے کیا کہا تھا؟ کیا کرا تھا؟ کیوں ایسا ہے؟ کیوں ویسا ہے؟ جانے دیجیے۔ آپ کی طرح اُن کے اعمال بھی لکھ لئے گئے ہیں۔ آپ اپنی فکر کیجیے، کہیں قیامت کے دن، آپ ہی امتحان میں فیل نہ ہو جائیں۔ سنا ہے اس کی تو کمپارٹ* بھی نہیں ہوتی۔
معافی ہو تیری، جب بات بنے۔
رسول اللہ کے پیچھے دو دو ٹاپ چلے۔
بھولا رہتا ہے مجھے، کیا خواب تھی وہ۔
زندگی کوئی تھی کبھی، خاک تھی وہ۔
اِس سیریز کا پہلا اور دوسرا آرٹیکل، زندگی-١ اور زندگی- ٢ ضرور پڑھیے۔
* کمپارٹمنٹ اکزام کسی تعلیمی سال کو دہرائے بغیر امتحان میں دوبارہ حاضری ہونے کا اختیار ہے۔
I am not a fan of reading articles, but the way you write, makes your article TOP CLASS!!! MashaALLAH bhai….proud of you.