زندگی – ٢

ابھی نومبر کے کچھ دن گزرے ہی تھے کہ ہمارے عزیز دوست داور خلیل کو میسج کیا کہ کہاں ہو۔ وہ آج کل پاکستان میں ہیں اور کوئی دو سال بعد گئے تھے۔ جواب آیا کہ ایمرجنسی ہے اور میں کراچی میں ہوں، یا غالباً کہا کراچی جا رہا ہوں۔ ہمارا ذہن اِس طرف گیا ہی نہیں کہ واقعی کوئی ایمرجنسی ہے، صرف یہ کہ شاید کوئی گھریلو معاملات یا کوئی پچیدہ کام ہو گا۔

جب کبھی وحشت ہوتی ہے تو ہم داور کو ہی میسج کر دیتے ہیں۔ اُن دنوں کافی وحشت تھی اور میسج ایک بار پھر کیا۔ یہاں بیٹی کی دوست کے کینسر کی کہانی چل رہی تھی اور وہاں داور کا میسج آیا کہ اِن کی چھوٹی بہن کی طبیعت خراب ہے اور امید ہے کہ جلد کیمیو شروع ہو۔ کہا کہ رپورٹس میں پینکریاٹک کینسر بتایا ہے اور وہ سٹیج فور ہے۔

بیٹی کی دوست کے ایکیوٹ بلڈ کینسر کے معلوم ہونے پر ہم نے گوگل کیا کہ یہ کیا ہے اور پھر گوگل نے اِس کے متاثرین کی بقا کی شرح کا بھی بتایا، جو کسی حد تک پُر امید ہے۔ البتہ جب پینکریاٹک کینسر سٹیج فور کو گوگل کیا تو اِس کی بقا کی شرح بہت کم پتا چلی۔ گویا یہ پینکریاس میں شروع ہوتا ہے اور انسانی جسم کے دوسرے اعضاء تک پھیل جاتا ہے۔ یہ پڑھ کر ہم کچھ دیر یہ محسوس کرتے رہے کہ یہ سب معلوم ہونے پر کسی مریض اور اُس کے گھر والوں پر کیا گزرتی ہے۔

دنیا گول ہے اور گھوم گھوم کر واپس آتی ہے۔ ایک مریض کو علاج دستیاب ہے اور ہو رہا ہے، لیکن وقت لگ رہا ہے، شفا ابھی دور ہے۔ اور دوسرے کا علاج شروع ہی نہیں ہو سکتا جب تک کہ اُس کی طبیعت کچھ بہتر نہ ہو جائے۔ ایک دن یہ دنیا رُک جائے گی، اُس دن ہم پوچھیں گے اِس سے کہ، ‘اے بےشرم، آج تجھے سمجھ آئی؟’

داور کی بہن پاکستان سکول مسقط کے دنوں میں ہمیں یاد ہیں کہ سب کی آنکھوں کا تارا تھیں۔ بخوبی یاد ہے، چھوٹی سی اور ہنستی کھیلتی۔ وہ ہماری جونیئر تھیں اور پھر کراچی میں ہم نے اُن کے ہاتھ کا مرچ قیمہ کیا ہی مزے سے کھایا ہے، سبحان اللہ۔ یہ بات شاید ‘ڈاکٹر ڈاکٹر’ ارشد حسن کو یاد ہو، لیکن آج کل ہم جس کسی گزری بات کا پوچھیں، وہ اُن کو یاد ہی نہیں ہوتی۔ اگر دنیا میں کوئی مرچ قیمہ ہم نے کھایا ہے، وہ داور بھائی کے گھر، یا پھر دبئی کے ڈیلی ریسٹورانٹ میں۔ ڈاکٹر صاحب  کو کہیں، ‘ڈاکٹر ڈاکٹر’ پڑھ کر مرچ ہی نہ لگ جائے۔ یہ ایک الگ کہانی ہے!

برتھ ڈے کا ذکر آیا کہ ابھی کچھ دنوں پہلے بہن کی برتھ ڈے گزری ہے، اور آج کوئی ایک مہینے بعد یہ ہے کہ ہم سب اللہ سے دعا گو ہیں۔ ساتھ ساتھ ہم بھی دعا گو ہو گئے۔ گھر میں سب کو بتایا، اور سب ہی کافی افسردہ ہوئے۔ دعا کی کہ اے اللہ شفاء عطا فرما۔ دل کیا کہ کراچی جا پہنچیں، پھر سوچا کہ ہم نہ تین میں نہ تیرا میں، جا کر کیا کریں گے۔ لیکن دل خوب کیا۔

اُنہی دنوں یہ خبر آئی کہ ہماری پہلی نانی کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور وہ انتینسیو کیئر میں ہیں۔ نانی سے ہم کبھی نہیں ملے، شاید ہماری امی بھی کوئی دو تین بار ملی ہوں گی پچھلے کئی سالوں میں۔ وجہ یہ کہ ہمارے نانا اور نانی ہماری امی کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد الگ ہو گئے تھے۔ پھر ہماری دوسری نانی آئیں اور وہ کافی مزے دار ہیں، لیکن ڈانت پڑ جاتی ہے کبھی کبھی، کہ کہاں ہو۔ اب رہتی کینیڈا میں ہیں، تو ہم کیا اپنی برف کی سلی جموانے وہاں پہنچیں؟

جن دنوں پہلی نانی کی طبیعت خراب ہوئی، ہماری امی کافی افسردہ تھیں۔ چہرے پر خوب واضح تھا، البتہ، چہرے تو صرف ہم ہی پڑھتے ہیں، تو کچھ اُن کو ہمت دینے کے لیے اُوٹ پٹانگ باتیں کرتے رہے۔ اس کا اُن پر اثر خوب ہوا تو ہم نے ہمت کر کے پوچھا کہ کیوں افسردہ ہیں؟ امی نے کہا کہ بس یہ خیال آ رہا ہے کہ شاید ہم اتنا مل نہیں سکے۔ خیال تو ٹھیک ہے، لیکن نانی امی کی ایک اور زندگی بھی تھی، اپنے دوسرے گھر میں۔

بیٹی سے بات ہوئی تو ہم نے کہا کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ چاروں طرف ایک سمندری طوفان ہے اور ہم اِس کے بیچ۔ طوفان کے بیچ اُس کا اثر نہیں ہوتا یا کم ہوتا ہے۔ کہا، جب ایسے میں اپنے آپ کو پائیں تو دعا کریں۔ دعا سے بڑھ کر مومن کے پاس کوئی ہتھیار نہیں۔ دعا ایسی کہ اے اللہ، سب کو شفاء عطا فرما دے۔ کیسی دعا ہے؟ قبول ہو جائے تو کیا ہی ثواب ملے، اور نہ ہو تو بھی ثواب ہے، اُتنا ہی۔ ہم جیسے سرپھرے ایسی ہی دعائیں کرتے ہیں دل سے، کیونکہ سننے والا، سنتا ہے۔

پھر خبر آئی کہ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ اگلے اڑتالیس گھنٹے اہم ہیں۔ ہم نے جواب دیا کہ اڑتالیس گھنٹوں میں تو دنیا بدل جاتی ہے، بیشک، اللہ تعالیٰ شفا دے۔ اڑتالیس گھنٹے گزرے تو ہم نے آڈیو میسج کیا اور پوچھا تو جواب آیا کہ طبیعت ٹھیک نہیں، اللہ آسانیاں فرمائے۔ چند گھنٹوں بعد میسج آیا کہ، ‘إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، وہ گزر گئی۔’

سچ یہ ہے کہ یہ دنیا، ہماری دعائیں، ہمارا ایمان، یہ سانسیں، سب اللہ عزوجل کی قدر کے محکوم ہیں۔ اِسے ایسے سمجھ لیں کہ ہمیں مَن مانی کرنے کی اجازت ہے، اور اُس کا اَمر، اُس کا حکم۔ اُس کاحکم ہمیں منظور ہے۔

آپ کچھ نہیں کر سکتے تو دعا کریں۔ مانگیے اپنے رب سے جو دل کرے۔ وہ دے تو اُتنا ہی شکر کریں، وہ نہ دے تو کوئی بات نہیں، اِس میں شرمندگی کیسی؟ کچھ اور دے دے گا، کسی اور ذریعے سے، کسی اور دن۔ ہاں، یہ ضرور کریں کہ جو کسی پر بیتی ہے، اُسے محسوس کرنے کی کوشش کریں۔ کچھ لمحوں کے لیے اُن کی طرح بن جائیں، سوچیے کہ یہ وہ نہیں آپ ہیں۔ دل کو رونے دیں۔ پھر آپ دیکھیں گے آپ کو کسی پر ترس نہیں آئے گا، وحشت ہو گی۔

آگے چل، کہ میں آ رہا ہوں۔
تیاری میری اُتنی، کہ جتنی تیری۔
حساب دے یاسر، کِیا، کیا کیا؟
ظلم اپنے پہ یہی، کوئی کوئی۔

اس سیریز کا پہلا آرٹیکل زندگی – ١ ضرور پڑھیے۔

Leave a Comment