یہ ایک اُداس مہینہ گزرا۔ شروع نومبر یہ خبر ملی کہ ہماری بیٹی کے بچپن کی دوست کی طبیعت کافی خراب ہو گئی ہے۔ دو دن بعد یہ پتا چلا کہ اُسے ایکیوٹ بلڈ کینسر بتایا ہے اور علاج العین کے طوام ہسپتال میں شروع ہوا ہے۔
یہ بچوں کے لیے کافی صدمے کی بات تھی، کیوں کہ کینسر جان لیوا بیماری ہے اور علاج تکلیف دہ۔ ایک اور غم یہ کہ بیمار ہونے والی اہلِ اسلام نہیں، تو دل مزید ہَول جائے کہ یومِ محشر بڑا سوال ہے۔ خیر، ہم نے وہی کیا جو کرنا چاہیے، سب کو کہا کہ دعا کریں اور آنے والے ہفتے العین طوام ہسپتال کی طرف چلیں، جو یہاں سے کوئی دو گھنٹوں کے فاصلے پر ہے۔
جمعے کا دن تھا اور ہم نماز پڑھتے ہی نکل پڑے۔ کوئی دو گلی دور ہی گئے تھے تو یاد آیا کہ قرآن مجید کی عبداللہ یوسف علی کے انگریزی ترجمے والی کاپی، جو ہم نے کوئی ایک آتھ سال پہلے وَرجِن میگا اِسٹور سے لی تھی، بھول گئے۔ اِس پر ہم نے گاڑی واپس لی اور بیٹے سے کہا کہ جاؤ اور لے آؤ۔ کوئی اُنتیس درہم کی یہ کاپی لی تھی، وہ بھی اُس دکان سے جہاں میوزک، موویز، گیمز، الیکٹرونکس اور کئی سجانے کی چیزیں ملتی ہیں۔ جس کے نصیب میں جو کتاب ہوتی ہے اُسے پہنچ جاتی ہے۔
ہمارا خیال یہ تھا کہ اِس وقت قرآن مجید نہ دیا جائے کیونکہ وہ اِسے پڑھ نہیں پائے گی، اور یہ کہ پھر اگلی وِزٹ پر دے دیں گے۔ البتہ اُس وقت یہ خیال آیا کہ لے چلیں اور اِسی وقت دے دیا جائے۔ یہ اچھا ہوا کیونکہ اگلے کچھ دنوں بعد وِزٹ کرنے پر پابندی لگا دی گئی کیونکہ مریز کی امیونٹی کا معاملہ ہوا۔ اِس طرح کلام مجید بروقت پہنچ گیا۔
اُن دنوں ہمیں کئ خیالات اور گئے دنوں کی باتیں یاد آئیں۔ پہلے فیصل مُنیر یاد آئے جو ہمارے بچپن کے دوست تھے اور ١٩٩٤ جولائی میں اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ اُن کے جانے کی خبر اور اُس دن کا صدمہ ہمیں خوب یاد ہے۔ ہم اٹھارہ سال کے تھے، اور وہ اُنیس۔ ہم کراچی میں، اور وہ مسقط میں، ایک دوسرے کو خط لکھا کرتے تھے۔
ہمارے والد صاحب نے، جو اُس وقت مسقط میں ہی تھے، بتایا کہ ایک خط فیصل نے ہمارے نام لکھ رکھا تھا، جو پوسٹ نہیں کیا تھا۔ فیصل کے والد صاحب نے اُنہیں کہا تھا کہ وہ یہ خط ہمارے والد صاحب کو دے دیں گے۔ اس خط میں فیصل نے کیا لکھا تھا، اللہ بہتر جانے، کیونکہ خط فیصل کے گھر ہی رہ گیا۔ کوئی نہ کوئی پیاری بات کہی ہو گی ضرور، یا ڈانت لگائ ہو گی۔
فیصل سے تو ہم قیامت کے دن ہی نپٹ لیں گے کہ بھائی، اتنی جلدی کیا تھی؟ کچھ سال اور ہمیں تنگ اور ڈانٹ ڈپٹ کر لیتے۔ اب یہ بتاؤ کہ یہاں اللہ کے عرش کے نیچے، مکینہ چکن اور اُس کے جُوس میں ڈوبی ہوئی خُبز مل رہی ہے یا نہیں؟ اُن یادوں کے کیا ہی کہنے۔
جب ہم اڑتیس سال کے ہوئے تو سوچا کہ آج اللہ نے ہمیں فیصل سے کوئی اُنیس سال زیادہ دیے ہیں۔ اُنیس سال زیادہ تو نہیں ہوتے۔
بیٹی کی دوست ایسی ہیں کہ اپنی اچھائی میں اپنے آپ کو ہی بھول جائیں۔ کینسر کے موضوع پر ایک یہودی ڈاکٹر گیبور ماتے کی طویل ویڈیو دیکھی تو کچھ یہ سمجھ آیا کہ کینسر کے اکثر مریض اپنی زندگیوں میں اپنے آپ کو کم ترجیح دیتے ہیں، اور یہ کہ جو اِس بیماری سے نکل آئے ہیں، اُنہوں نے اپنی عادتیں بدلیں، اور اپنے آپ کو، اپنے احساسات کو وقت اور اہمیت دی۔
اُن دنوں جب بیٹی کی سب دوستیں پریشان، اسکول میں سب اساتذہ حکا بکا، تو ہم نے بیٹی سے کہا، اپنی دوست سے کہیں، اتنا اچھا ہونا چھوڑ دیں۔ یہ سن کر بیٹی کافی ہنسیں اور کہا، یہ سچ ہے، وہ ایسی ہی ہے۔
یہ دن کافی سخت گزرے، ہم اپنے گھر والوں کو دیکھیں اور اللہ کو یاد کریں۔ خوف یہ نہیں کہ اس بیماری کا علاج نہیں یا کہ علاج مہنگا ہے، نہیں۔ خوف یہ ہے کہ اللہ اپنے انداز میں کس کس کو یاد کیا کرتا ہے، اور کیسے کیسے۔ جس دن اُس کی قدر قائم ہو جائے، تو کیا روکیے گا۔ اور اگر قائم ہو ہی جائے، تو کیا کریے گا۔ دل ڈوبتا رہا، ہم چپو چلاتے رہے، اللہ اللہ کر کے یہ کشتی کنارے لگی۔
ہوا یہ تھا کہ بیٹی کی دوست کے مسوڑوں میں کوئی سوجن آئی پھر گلا کافی خراب ہوا اور ایک عام معمول دن کی طرح وہ کسی کام سے اسکول بھی پہنچ گئی کہ پہلے یہ کام کر لیں، پھر ڈاکٹر کو دکھا دیں گے، آپ سوچیے۔ پھر اگلے چوبیس گھنٹوں میں پہلے این ایم سی ہسپتال شارجہ، پھر زلیخا ہسپتال دبئی اور پھر زلیخا ہسپتال کی ٹیم کے مشورے پر فوراً العین طوام ہسپتال جانا پڑا۔ یہاں اُسے ایک طرف یہ خبر مل رہی تھی کہ کینسر کا اٹیک ہے، اور دوسری طرف شب پلٹ رہی تھی کہ آنے والے دن اُس کی سالگرہ ہے۔
اُن دنوں سب ہی اللہ کی طرف رجوع کر رہے تھے تو ہم نے کہا کہ اُس کے لیے بھی دعا کرو جس نے ہماری غریب قوم کے لیے کینسر کے ہسپتال بنائے اور اِس وقت جیل میں بیٹھا ہے۔ جب کسی ملک کے ہیرو جیل میں ہوں، ایٹمی طاقت لانے والے نظر بند کر دیے جائیں، یا ایک تھکی ہوئی ایئرلائن کے جہاز کے گرنے سے جاں بہق ہوں، تو کیا ہی ملک ہے؟ صِفر۔
یہاں کینسر کے علاج کے کچھ پیسے نہیں دینے پڑ رہے، اِس وقت نہیں۔ جب انشاءاللہ طبیعت بہتر ہو جائے گی، اُس وقت فالو اپ ٹریٹمنٹ کے لیے دینے ہوں گے۔ یوں یہ خوشی ہے کہ اِس ہولناک بیماری کا علاج یہاں دستیاب ہے۔ البتہ ہر قسم کا کینسر، قسم قسم سے انسان پر اثر کرتا ہے اور اِس کا علاج کافی دردناک بھی ہے۔
بیٹی کی دوست کی خبر یہ ہے کہ اُس کا علاج شروع ہوا تھا اور بہتری آنے پر ہسپتال کے کمرے سے ہسپتال کی اکوموڈیشن منتقل کیا تھا لیکن پھر انفیکشن دوبارہ شروع ہوا اور اب واپس ہسپتال میں منتقل کر دیا ہے۔ بیٹی کی بات بھی ہوئی ویڈیو کال پر اور یہ پتا چلا کہ دوست نے قرآن مجید پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ کہا کہ میں کافی پہلے سے پڑھنا چاہتی تھی۔
ایک خوب بات یہ ہے کہ جو تحفے ہمارے ہاں سے دیے گئے، اُس میں ایک ہواوے کا وائرلیس ہیڈفون بھی تھا، جو بالکل پیک ہمارے پاس رکھا تھا۔ جاتے جاتے اِسے بھی بیگ میں رکھوا دیا تھا، کہ وہ خوش ہو جائے گی، اِس سب طوفان میں۔ ہوا یہ کہ ہیڈفون تو اُن کی بہن لے گئیں، کہ اِس وقت کیا ہی سنے اور جو رہ گیا وہ اللہ کا کلام۔ سبحان اللہ۔
آپ خوشیاں نہیں بانٹ سکتے تو نہ سہی، قرآن مجید تو بانٹ سکتے ہیں؟ آج سے کوئی چالیس سال پہلے ہمارے والد صاحب نے شیخ احمد دیدات کے دفتر جو آج بھی ڈربن، ساؤتھ افریقہ میں ہے، خط لکھ کر ایک قرآن مجید منگوایا تھا۔ یہ وہی قرآن مجید ہے جس کی کاپی شیخ احمد دیدات اپنے ہر لیکچر اور ڈیبیٹ میں دکھاتے ہیں۔ ۲۰۱۸ میں بچوں اور ہم نے اِس قرآن مجید کو لفظ بہ لفظ QuranYusufAli.com پر شائع کر دیا تھا اور آج اِس ویب سائٹ پر سالانہ لاکھوں پڑھنے والے آتے ہیں۔ یہ عبداللہ یوسف علی صاحب کا انگریزی ترجمہ ہے، جو اُنہوں نے کوئی اُناسی سال پہلے لاہور میں لکھ کر مکمل کیا تھا۔ آپ کو وقت ملے تو اِسے ضرور پڑھیے گا۔ کچھ نہیں تو آپ کی انگریزی ہی اچھی ہو جائے گی۔
آج دسمبر٢، اور متحدہ عرب امارات کا قومی دن ہے۔ ہم گھر پر کچھ چھوٹے چھوٹے مزے کر رہے ہیں، جن میں ایک یہ کالم لکھنا ہے۔ نومبر گزر گیا لیکن اِس کی کچھ دردناک کہانیاں اور باقی ہیں، اگلے کچھ کالموں میں مکمل کروں گا۔
جو وقت گزر جائے خیر سے، اللہ کا شکر۔
جو ٹہر جائے تو قیامت۔
زندگی یہاں بھی ہے، وہاں بھی۔
اپنے یہاں بھی ہیں، وہاں بھی۔
اس سیریز کا دوسرا آرٹیکل زندگی – ٢ ضرور پڑھیے۔