خاموشی

ایک عجیب سِی خاموشی ہے۔ کچھ سوچتے ہیں تو ذہن رُک سا جاتا ہے۔ یہ بُڑھاپے کا آنا ہے یا نا اُمیدی کا اثر، یا صرف یہ کہ سوچتے ہیں کہ سَو سال میں اگر کوئی ہماری تحریر پڑھے گا تو اُسے سمجھ بھی آئے گی کیا۔

یُوں اِس لیے لکھ رہے ہیں، کہ سمجھدار سمجھ جائے اور بیوقوف کو چکما دیا جائے۔ کھُل کر، منہ کھول کر بات کرنے والوں کو مٹا دیا گیا، بھگا دیا گیا، یا مارا کُوٹا گیا۔ کوئی بات نہیں بچُو، ہم جلد ٹرمپ کارڈ کھیلیں گے۔

گزارش ہے کہ جس کو کتنا ہی نکالنا چاہو، وہ ویسے ہی واپس آتا ہے زور سے۔ ٹرمپ کو نکالنے والے نکال چکے، وہ جلد صدر بنیں گے امریکہ کے اور پھر کہیں گے، جنرل ایئر کنڈیشنر ٹھیک نہیں چل رہے۔ الیکٹریشن، یُوآر فائرڈ۔

ٹرمپ کو ہم جب سے پسند کرتے ہیں جب کوئی دس پندرہ سال پہلے اُن کا پروگرام، دی اپرینٹس دیکھا کرتے تھے۔ اِس پروگرام میں اُن کا بھرم، اور دبنگ انداز سب سے نُمایاں، اور اُن کا کاروباری انداز انوکھا۔

ہمیں رپبلکنز، ڈیموکریٹس سے کئی وجہ سے زیادہ پسند ہیں، لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ، یہ بہرحال اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، اپنے مذہب کے مطابق۔ ڈیموکریٹس جب بھی آتے ہیں، ستیا ناِس ہی کرتے ہیں۔ شاید اِن میں سب سے بہتر کلنٹن تھے، بس۔ اُن کی بیگم اُتنی ہی فارغ ہیں، جتنے اوبامہ نکلے۔

وہ جو ٹرمپ کارڈ ہم نے کہا، وہ تو ہمارے ہاں، اللہ تعالی کا ہی ہے۔ اور کارڈ ہم کیا چلائیں گے، دودھ میں جَلد جوش آنے کوہے، پھر ساسو امی کی چیخیں نکل جائیں گی کہ ہآئے یہ کیا، نیا چولہا جَل چِپک کر ختم ہو گیا۔

کئیوں بار ایسا ہوا ہے کہ ایمان والے ہی رو دیے کہ اللہ کب آئے گی تیری مدد۔ اور ابھی تو ہم روئے ہی نہیں۔ ہاں یہ ہے کہ رُلا ضرور دیا ہے پوری پتلون کو۔ قادر خان صاحب کی طرح، جِن کی جیب میں رَس گُلوں کا تھیلا لیک ہو گیا تھا، اور سب کچھ اور ہی سمجھے تھے۔

آزادی کے دن روپیہ ایک ڈالر کا تھا۔ ایک دن آئے گا جب ڈالر پھر ایک روپیہ کا ہو گا۔ ارے، اب سب ہی کوئی نہ کوئی بات ہانکتے ہیں، تو ہم کیوں نہیں؟ آ رہے ہیں نہ ملک میں باہر سے لوگ کام کرنے، تو پھر خان صاحب سُرخرو ہوئے۔ پورا نواز قبیلہ آ چکا ہے۔

تُو تُو میں میں کی جنگ، میں تُو میں تُو میں بدل گئی۔

وہ کیا؟ ہم واہ!
اپنے منہ میاں مِٹّھو، لَب پے ہے، آئی لَوّو یُو۔
بَس بھر کر غلام لاؤ، پھر فون کی بتی دکھاؤ۔
ڈرون نہیں، ڈھونگ رچانا، اِسٹیج پر ہے، ہیما، شبانہ۔
شیخ کو دو چپیڑ، پھر سگار اُتھے، تے درد ویکھ۔
ڈرا ڈھمکا کے سر زمینِ پاکستان، چیخے، عمران عمران۔

تحریکِ انصاف، لِفافوں کی نظر ہو گئی۔ جہاں جہاں لفافہ گیا، وہاں وہاں تحریک لپٹ گئی۔ جہاں لفافہ نہیں گیا، وہاں ویڈیو گئی یا بانس۔ اب کچھ کہتے ہیں تحریک وقت  کے آغوش میں دم توڑ دے گی، کچھ یہ کہ اِسے، اِس کے لال اور ہرے جھنڈے میں لپیٹ کر دبا دیا جائے گا۔ تحریک ہوتی تو لوگ متحرک ہوتے۔ لوگ چلے جا رہے ہیں، گاتے گاتے، ‘ہم کِس گلی جا رہے ہیں۔’

جو شہروں میں ہیں اُن کو معلوم ہے کہ الیکشن کے بعد پھر ایسی کی تیسی ہو گی۔ اور جو دیہات میں ہیں، ایک دوست  کے مطابق، اُن پر مہنگائی کا اتنا فرق نہیں پڑتا، کہ وہ پیٹ کَس کر جینا جانتے ہیں۔ کیا ہی خوب ہوتا کہ سب ایک ہوتے، کسی ایک کا درد اپنا درد سمجھتے۔ سچا بھائی چارہ ہوتا۔

جلسوں کا جُوس نکل گیا۔ جن کے جلسوں میں عوام آیا کرتی تھی، اُن کا بھی جُوس نکل گیا۔ خان صاحب پر کتنا ہی غصہ آئے، پیار اُس سے کہیں زیادہ آتا ہے۔ قائدِ اعظم خان صاحب سے ملتے تو خوب کہہ دیتے:

My boy, you have reinstated the nation to the exact juncture where I ceased my labors. And in this era, the common man is cognizant that he has never been a sovereign individual. He shall not attain liberty until he perceives himself in the mirror, in the manner he perceives his overlords. It is at that moment he emerges as an equal. And unshackled. Free from the confines of tribe, race, class, creed, and language. This is the confine that your masters apprehend; this is the confine of equality.

اور خان صاحب جواب دیتے:

Quaid, the game for haqiqi aazadi and true equality is still on. I’m not leaving the crease, no matter how hostile the bowlers or the pitch. Allah has laid bare the real faces of our so-called masters and their cronies. I promise, I’ll play this inning until the last ball, even if it’s my ticket out of this world.

ایک ٹھنڈی سانس لینے کے بعد ہم سوچ رہے ہیں کہ کیا سوچیں۔ ایک دوست خوب کہتے ہیں کہ یار تو نہ سوچ، نہ سوچا کر۔ وہ اِس لئے کہ جب ہم سوچ کا لفظ کہتے ہیں تو اِس میں کچھ نُون کا وزن انہیں سنائی دیتا ہے۔ نُون کا وزن ہے تو صحیح!

1 thought on “خاموشی”

Leave a Comment